شوگرکین اگرونومی
کسی بھی فصل کی کوئی نئی قسم خواہ کتنی ہی زیادہ پیداواری کیوں نہ ہو، یہ مختتم پیداور تبھی دے گی جب اس کی کاشت اور انتظام صحیح طریقے سے نہ ہو. اگرونومی سیکشن پیداوار کے جدید طریقوں پر تحقیق کرتی ہے، تاکہ گنے کی کسی اعلی قسم سے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور چینی کا پرتہ لیا جا سکے . زمین کی تیاری، پودوں کی تعداد، کھادوں کا استعمال، شرح تخم اگرونومی سیکشن کی تحقیقات کا مرکزہ ہے. اس کے علاوہ اس سیکشن میں مخلوط فصلوں اور فصلوں کے ہیرپھیر پر بھی تجربات لگاۓ جاتے ہیں.

اس کے علاوہ، حال ہی میں گنے کی چپ بڈ ٹیکنالوجی پر بھی سیر حاصل تجربات کیۓ گئے ہیں. اس طریقہ کاشت سے تخم کی بڑی بچت ہوتی ہے.

گنے کے فصلی کیلنڈر

ٹوٹوں کی فصل کے لئے

مونڈھ کی فصل کے لئے

(گنے کی جڑی بوٹیاں اور ان کا تدارک (محمد طاہر، پی ایچ ڈی، ایس سی آر آئ، مردان

گنے کی چپڈ بڈ ٹیکنالوجی

ہمارے صوبے میں گنے کی فصل کی کم پیداوار میں ایک اہم عنصر فصل کے مداخل مثلا تخم، کھاد، دوائیوں اور مزدوری پر آنے والا خرچہ ہے. ان میں تخم اور اس پر آنے والا خرچہ سر فہرست ہوتا ہے. گنے کے ایک ایکڑ رقبے کیلئے سفارش کردہ تخم کی مقدار ٨٠ تا ١٠٠ من تجویز کی جاتی ہے. تاہم زمیندار بجاۓ پورا بیج استعمال کرنے کے، تخم میں بچت کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اس کے علاوہ سردیوں میں پالا پڑنے سے بھی گنا متاثر ہوتا ہے. مزید براں بعض اوقات گنے کی کاشت کے وقت زمین خالی نہیں ہوتی.

ان نکتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ ایک نئی ٹیکنالوجی پر کم کیا گیا. اس کو چپڈ بڈ ٹیکنالوجی کا نام دیا گیا ہے. یہ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر ایک ہندوستانی انجنیئر نے متعارف کی تھی. اسی خیال کو اپناتے ہوۓ اس پر اس ادارے میں تجربات شروع کیے گئے. اس طریقے میں گنوں سے صرف آنکھیں ایک مشین سے الگ کر لی جاتی ہیں اور ان کو نرسری اگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. جب نرسری تیار ہو جاۓ تو اسے کھیت میں منتقل کر لیا جاتا ہے.

ادارے کے ابتدائی تجربات میں اس کے بہت حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوۓ ہیں. اس ٹیکنالوجی سے نہ صرف تخم پر آنے والا خرچہ حیرت انگیز طور پر کم ہو جاتا ہے بلکہ اس طریقے میں وقت کاشت کو بھی آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے، جو سردیوں میں پالے کے خراب اثرات سے فصل کو بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے. ادارہ براۓ فصلات شکر میں یہ ٹیکنالوجی سن ٢٠١٠-١١ میں سینئر ریسرچ افیسر، محمد طاہر، پی ایچ ڈی، انڈیا کی چپڈ بڈ مشین کا نمونہ بنایا اور تجرباتی طور پر پنیری لگائی جس نے حوصلہ افزا نتائج دئے. بعد ازاں صوبائی حکومت کی طرف سے منظور ہونے والے ایک منصوبے میں ڈاکٹر امجد علی، سینئر ریسرچ افیسر، نے وسیع پیمانے پر ادارے کے اندر اور زمینداروں کے کھیتوں میں اس طریقہ کاشت پر مزید سر حاصل تجربات کئے. ذیل میں اس ٹیکنالوجی کا مختصر الفاظ میں احاطہ کیا جاتا ہے. مزید تفصیلات کیلئے ڈاکٹر امجد علی، سینئر ریسرچ آفیسر سے رابطہ کریں.

چپڈ بڈ پنیری بنانا

صحتمند گنوں سے مشین کے زریعے بڈ یا آنکھیں حاصل کر لی جاتی ہیں. ان کو اچھی سی پھپھوندی کش دوائی میں بھگو دیا جاتا ہے. اس کے بعد ان کو اونچے کے گئے بیڈز میں لگا دیا جاتا ہے. باقی ماندہ گنا گھانی یا مل کو بھیج دیا جاتا ہے.

کھیت میں منتقلی کیلئے پودوں کی عمر

پنیری کے پودے ٢٥ تا ٣٥ دنوں میں منتقل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں. تاہم اس میں موسمی حالات کے مطابق میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے.

چپڈ بڈز کی مطلوبہ تعداد

٢ ضرب ٣ فٹ کے فاصلے پر پودے لگاتے ہوئے ١٨ تا ٢٠ ہزار پودے تقریبا ڈھائی ایکڑ رقبے کے لئے کافی ہوتے ہیں.

پانی کا استعمال

چونکہ پودوں کو کیلوں کے درمیان لگایا جاتا ہے، اس لئے اس سے پانی کی بچت ہوتی ہے.

مخلوط کاشت

اس ٹیکنالوجی میں ہم گنے کی دوسری فصلوں مثلا گندم، آلو، خربوزے اور ٹماٹر کے ساتھ مخلوط کاشت کر سکتے ہیں.

مجموعی فائدے

تخم کی حیرت انگیز بچت ہوتی ہے.

کھیت میں ناغوں کا امکان کم ہوتا ہے.

وقت کاشت میں آسانی کے ساتھ ردوبدل کیا جا سکتا ہے.

پنیری کو آسانی کے ساتھ ایک سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے.

چپڈ بڈ ٹیکنالوجی کی تصاویر دیکھنے کیلئے دائیں مینو میں "تصویریں" پر کلک کریں.

 

www.scri.gkp.pk ::: کاپی رائٹ © ٢٠١٦
ویب سائٹ کو آخری مرتبہ اپ ڈیٹ کیا گیا
October 9, 2020 .